آہنی دیوار میں در دیکھنا

ایک دن خود سے نکل کر دیکھنا

جیت کیسے چومتی ہے پاؤں کو

کشتیاں اپنی جلا کر دیکھنا

کون پھولوں سے سواگت کرتا ہے

کس کے ہاتھوں میں ہے پتھر دیکھنا

یاد کے سونے دریچوں سے کوئی

جھانکتا ہے میرے اندر دیکھنا

جان لینا فاختہ مجبور ہے

جب کوئی سہما کبوتر دیکھنا

مرتضیٰ اِک شام اُس کی آنکھ سے

ڈوبتے سورج کا منظر دیکھنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]