اپنے سر تیرے تغافل کا بھی الزام لیا ہے

خود فریبی کا ستم دل پہ کئی بار کیا ہے

دل نے اس طرح مداوائے غمِ عشق کیا ہے

اک نیا زہر ترے ہاتھ سے ہر روز پیا ہے

غم ترا مجھ کو جلاتا نہیں کرتا ہے منوّر

ہاتھ پر آگ نہیں یہ تو ہتھیلی پہ دیا ہے

عشق سچّا ہو تو کرتا ہے ہر اک قید سے آزاد

رشتہ جھوٹا ہے کہ جس نے تجھے زنجیر کیا ہے

گفتگو تلخ تھی اے چارہ گرو مان لیا یہ

لب مرے زخم نہیں تھے کہ جنہیں تم نے سیا ہے

زندگی تجھ کو شب و روز یوں سینے سے لگا کر

کوئی جی کر تو دکھائے میں نے جس طور جیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]