اپنے ہر درد کا درمان بنائے رکھا

غم اک ایسا تھا کہ سینے سے لگائے رکھا

پاسِ ناموسِ مسیحا تھا مجھے درپردہ

زخمِ جاں سوز کو مرہم سے بچائے رکھا

ایک اندیشۂ ناقدریِ عالَم نے مجھے

عمر بھر چشمِ زمانہ سے چھپائے رکھا

کبھی جانے نہ دیا گھر کا اندھیرا باہر

اک دیا میں نے دریچے میں جلائے رکھا

دیکھ کر برہنہ پا راہ کے کانٹوں نے مجھے

رشکِ گلشن مرے رستے کو بنائے رکھا

اصل کردار تماشے کے وہی لوگ تو تھے

وقت نے جن کو تماشائی بنائے رکھا

دیکھ سکتا تھا بہت دور تک آگے میں ظہیرؔ

جب تک اِن شانوں پہ بچوں کو اٹھائے رکھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]