اکّا دکّا لوگ سیانے ہوتے تھے

کسی کسی کے گھر میں دانے ہوتے تھے

سو تک گنتی کسی کسی کو آتی تھی

ایک روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے

گاؤں میں بس ایک ہی مسجد ہوتی تھی

ہر دل میں بس چار ہی خانے ہوتے تھے

جھوٹی قسمیں شہر میں تھیں اور گاؤں میں

بس تکیے پر پھول بنانے ہوتے تھے

گمراہوں کو راہ پہ لانا آساں تھا

ہمیں منڈیر پہ دئے جلانے ہوتے تھے

چل جاتے تھے جادو ٹونے اور تعويذ

سادہ لوگ اور سچے زمانے ہوتے تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]