بامِ تعبیر پہ کھِلتا ہُوا مژدہ دیکھا

جب مری آنکھ نے توصیف کا ثمرہ دیکھا

ایک احساس تھا، احساس بھی ما بعدِ نظر

کیسے خاشاک نے اک نور کا حُجرہ دیکھا

دوڑتا پھرتا تھا آنکھوں کا براقِ تشویق

دل نے تو محض تری سمت کا رستہ دیکھا

نعت لکھنے کی تمنا میں بصد شوق و نیاز

اذن کے دَر پہ سر افگندہ یہ خامہ دیکھا

پُوری ترتیب سے رکھا ہے سعادت کا سفر

حدِ میقاتِ مدینہ سے ہی مکہ دیکھا

پڑھ لیا جب تری عظمت پہ درود اور سلام

پھر دعاؤں نے عطاؤں کا کرشمہ دیکھا

کون ٹھہرے گا بھلا اس کے تناظر کا امیں

چشمِ نم نے جو ترے شہر کا نقشہ دیکھا

یہ نہیں تھیں بخدا، یہ تو نہیں تھیں بخدا

سوچتا ہُوں کہ کن آنکھوں نے مدینہ دیکھا

ایک ساعت میں سمٹ آیا زمانوں کا وصال

کاسۂ ہجر میں جب دید کا لمحہ دیکھا

بعد میں نعت کے مطلع پہ ہُوا حرف طلوع

پہلے احساس نے مقصودؔ وہ چہرہ دیکھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]