بدر کامل شہ نواب ہے چہرہ تیرا

تیرگی چھو نہیں سکتی رخِ زیبا تیرا

کاسے بھرتے رہیں، بٹتا رہے صدقہ تیرا

کوئی مایوس نہ ہو مانگنے والا تیرا

اک نظر دیکھ لیا جس نے ترا حسن و جمال

آئینہ خانے میں کرتا رہے چرچا تیرا

شاہ نواب کے آئے تھے خیالات ابھی

اے مرے ذہن بتاتا ہے مہکنا تیرا

اے مرے ابر عنایات و کرم اے نواب

جو بھی چاہے اسے مل جاتا ہے سایہ تیرا

بس ترے نام کی گردان ہے کروٹ کروٹ

کاش ہو پائے یہ بیمار نہ اچھا تیرا

جرعہ جرعہ ہی مئے دید عطا ہوتی رہے

کبھی سیراب نہ ہو پائے یہ پیاسا تیرا

تاجداری کے مرادف ہے گدائی تیری

بحر کی پیاس بجھا سکتا ہے قطرہ تیرا

جب بھی سوچا کہ زیارت کو اٹھاؤں نظریں

یوں لگا چرخ چہارم پہ ہے روضہ تیرا

کچھ تو رکھ میرا بھرم کچھ تو بنا بات مری

سب کو معلوم ہے کیا رشتہ ہے میرا تیرا

نور پاتے ہیں ترے نور سے جانے کتنے

رات دن ہر گھڑی سورج ہے چمکتا تیرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]