بزرگ و برتر خدا نے جب

بزرگ و برتر خدا نے جب
سرور دو عالم محمد مصطفی کو پیغمبری کے انعام سے نوازا
تو شہر مکہ کی ہر گلی سے یہ شور اٹھا
اگرچہ یہ صادق اور امیں ہے
مگر ہم ایسے رسول کو مانتے نہیں ہیں
جو مال و دولت میں ہم سے کم ہے
نہ صاحب سیف ہے نہ یہ وارث قلم ہے
نہ سلطنت اس کے پاس کوئی، نہ کوئی لشکر
نہ مرتبے میں عظیم ہے یہ
اگر ہے کچھ تو یتیم ہے یہ
چلو یہ سب کچھ اگر نہیں ہے
نشست و برخاست اس کی، اس کا یہ رہنا سہنا
یہ کھانا پینا ،یہ چلنا پھرنا
یہ سب کچھ اس کا ہمارے جیسا ہے
اور اس کی یہ ساری صفتیں تو ہیں حقیقت میں
اپنے قدموں پہ چلنے والے بشر کی صفتیں
یہ اپنے قدموں پہ چلنے والا
اندھیری راتوں میں چھوڑ کر شہر، دامن کوہسار کو یہ نکلنے والا
بجائے گھر کے، حرا میں جا کر یہ سونے والا
یہ اپنے ہاتھوں سے اپنے کپڑوں کو دھونے والا
یہ اپنی تنہائیوں میں آنسو بہانے والا
نہیں ہے کوئی بھی کام جس کا زمانے والا
یہ کہہ رہا ہے کہ میں نبی ہوں
یہ اک بشر ہے
بشر بھی ایسا، جو ہے تہی دست اور مفلس
اگر بشر پر کتاب اترتی
تو شہر طائف کے رہنے والے پہ یا وہ مکہ کے ہی کسی ایک
معتبر شخص پر اترتی
وہ معتبر شخص جس کی قوت کا سارا عالم گواہ ٹھہرے
وہ جس کے آگے نہ کوئی بھی کجکلاہ ٹھہرے
زمیں سے اٹھے تو آسمانوں پہ جا کر اس کی نگاہ ٹھہرے
جو شان و شوکت میں ہو رفیع و عظیم، دولت میں سب سے بڑھ کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]