بس ایک جیسے ملے لوگ بار بار مجھے

کہ تجربہ نہ ہوا کوئی خوشگوار مجھے

بہت دنوں سے جو الجھن ہے ، مجھ کو لگتا ہے

ملے گا جاں سے گزر کر ہی اب قرار مجھے

کسی بھی شے کے مناسب جگہ نہیں کوئی

پسند آتا ہے کمرے کا انتشار مجھے

میں عمر بھر جسے پلکوں پہ لے کے پھرتا رہا

وہ چاند چہرہ نظر آئے ایک بار مجھے

تمام شہر میں ہیں میرے تذکرے قیصرؔ

بنا دیا ہے محبت نے اشتہار مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]