بس قتیلِ لذتِ گفتار ہیں

ہم عمل کرنے کو کب تیار ہیں

مدحتِ خیرالبشر کے واسطے

کچھ تو سیرت کے گُہر درکار ہیں

یہ شعور اے کاش! اب بیدار ہو

ہم امینِ عظمتِ کردار ہیں

نقشِ سیرت دیکھنے کے شوق میں

میری آنکھیں روزنِ دیوار ہیں

سیرتوں کے شہر ویراں میں حضور !

زندگی کے کھوکھلے معیار ہیں

بے حسی نے ڈال رکھے ہیں حجاب

ورنہ زخموں کے بہت انبار ہیں

بے یقینی کا دلوں پر راج ہے

قریہ قریہ خوف کے آثار ہیں

اُسوۂ ختم الرسل سے دُور ہیں

اور اُن کے عشق سے سرشار ہیں

فکر ہے اخلاص سے خالی مگر

نعت میں الفاظ کے انبار ہیں

جلد ڈھل جائے گی شب اِدبار کی

چند لوگوں کے تو دل بیدار ہیں

کچھ غلامانِ محمد مصطفیٰ

سر کٹانے کے لیے تیار ہیں

ہو عزیزؔ احسن نہ یوں مایوس تو!

اب سحر ہونے کے بھی آثار ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]