بیٹیوں جیسی ھے تُو، سو جب بڑی ھوجائے گی

بیٹیوں جیسی ھے تُو، سو جب بڑی ھو جائے گی

اے اُداسی ! کیا تری بھی رُخصتی ھو جائے گی ؟

ایک ھی تو شخص مانگا ھے خُدایا ! دے بھی دے

کونسا تیرے خزانوں میں کمی ھو جائے گی

میری بستی میں تو تِتلی پر بھی مَر مِٹتے ھیں لوگ

تیرے آنے سے تو خلقت باؤلی ھو جائے گی

میرا کیا ھوگا ، بتا ! تیری محبت ھار کر ؟

تیرا کیا ھے ، تُجھ کو فوراً دوسری ھو جائے گی

میرے حِصّے کی خُوشی پر کُڑھنے والے دوستو

اِس طرح کیا میری نعمت آپ کی ھو جائے گی ؟

پھول کُملا جائے گا اتنی مُسلسل دُھوپ سے

ھجر کی شدت سے گوری سانولی ھو جائے گی

دُور ھے جس بزم سے اُس بزمِ کی نیّت تو کر

غیر حاضر شخص ! تیری حاضری ھو جائے گی

بولنے سے شرم آتی ھے تو آنکھوں سے بتا

چُپ بھی ٹُوٹے گی نہیں اور بات بھی ھو جائے گی

اور کیا ھوگا زیادہ سے زیادہ ھجر میں ؟

سانس کی مہلت میں تھوڑی سی کمی ھو جائے گی

اُس کو فارس اپنے سچّے لمس کا تریاق دے

تیری آنکھوں کی ڈسی اچھی بھلی ھو جائے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]