بٹ گئے فرقوں میں کیسے یار لوگ

چھے مخالف اور حق میں چار لوگ ؟

میرا مسلک عشق ہے ، درویش میں

مجھ سے ناخوش ہیں یہ دنیادار لوگ

اس لئے باتوں میں آجاتی تھی میں

فطرتا”​ سادہ تھی میں ، مکار لوگ

چند خوابوں کی ہوئی نہ دیکھ بھال

سب ہی نکلے غیر ذمے دار لوگ

پھر نیا رخت سفر باندھا گیا

ہوگئے ہجرت کو ہم تیار لوگ

دخل دینے آئیں گے ہر کام میں

زہر لگتے ہیں یہ رشتے دار لوگ

میر جعفر ، میر صادق ہیں کئی

منہ کے اچھے ہیں مگر غدار لوگ

اس نے ترکِ عشق کا پوچھا سبب

اور مجھے کہنا پڑا ہر بار ، لوگ

ایک دن ڈھونا ہے اپنے آپ کو

ہم ہیں اس دھرتی پہ کومل ، بار لوگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]