بہار آئی ہے گلشن میں، اسیرِ باغباں ہم ہیں

زباں رکھتے ہوئے بھی وائے قسمت، بے زباں ہم ہیں

ابھی سے کیا کہیں، ناکام ہیں یا کامراں ہم ہیں

کہ یہ دورِ عبوری ہے، بقیدِ امتحاں ہم ہیں

بھٹکتے پھر رہے ہیں ہم نشاں منزل کا گم کر کے

حیا آتی ہے اب کہتے، حرم کے پاسباں ہم ہیں

سنے دنیا تو حیرت ہو، اگر دیکھے تاسف ہو

وہ رودادِ جہاں ہم ہیں، وہ بربادِ جہاں ہم ہیں

تلاشِ کارواں کیوں ہو؟ تلاشِ راہبر کیوں ہو؟

کہ جب خود کارواں ہم، خود ہی میرِ کارواں ہم ہیں

جو گزرے گی، سو گزرے گی، کہ اس میں دخل کیا اپنا

خدا حافظ نظرؔ، رکھتے بنائے آشیاں ہم ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]