بے اختیار تھا ، ناقابلِ معافی تھا

مگر یہ ہجر ترے عشق کی تلافی تھا

قدیم لوگ محبت پہ جاں چھڑکتے تھے

نیا بیانیہ پہلے سے اختلافی تھا

تمام حرف ِدعا معتبر ہوئے لیکن

مگر وہ نقطہ جو میرے لیے اضافی تھا

تمام عمر بنا دیکھے سوچنا اُس کو

تمام عمر یہی ایک درد کافی تھا

ہم ایک دوری پہ کرتے رہے سفر قیصر

یہ دائرہ بھی ہمارے لیے طوافی تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]