بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب

بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے

جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے

جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا

برائے خواب بچی ہے تو دست برداری

فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری

محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک

دلِ تباہ دھڑکتا رہے غنیمت ہے

بحال ہے جو تنفس تو کم نہیں یہ بھی

بحال گر نہ رہے گا تو غم نہیں یہ بھی

فقط اسی کا نہیں ہے کہ غم کسی کا نہیں

نہ اپنی ذات کا غم ہے نہ کائنات کا غم

نہ دستیاب کا شکوہ نہ ممکنات کا غم

نہ خواہشوں کے تعاقب کی اب ہوس کائی

ہوس ہی کیا ہے کہ ہمت ہی اب نہیں باقی

کہ ایک سانس جو مٹھی میں تھام رکھی ہے

وہ محض ایک توقع پہ پھونک دی جائے

جو ایک بوند سی باقی ہے کاسہِ دل میں

وہ ریگ زارِ تمنا پہ وار دی جائے

حیات قید کی صورت ہے کاٹنی ٹھہری

کوئی بھی خواب نہیں لازمی ، اضافی ہے

حیات صرف تنفس کا اک تسلسل ہے

سو اب خوشی بھی ضرورت نہیں تعیش ہے

کہ زندگی کو فقط زندگی ہی کافی ہے

شکست اب کوئی صدمہ نہیں الم بھی نہیں

نہیں ہے کچھ بھی مکمل تو کوئی بات نہیں

سپردگی کا وہ عالم ، کہ تختہِ دل پر

کوئی بھی نقش بنا دیجیے ، گوارا ہے

لباس خاک چھپائیں گے آج عریانی

کہ اب کی بار سرے سے بدن اتارا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

ملّی نغمہ

نظر نواز طرب آفریں جمیل و حسیں خوشا اے مملکتِ پاک رشکِ خلدِ بریں سلام تجھ کو کریں جھک کے مہر و ماہِ مبیں تو دینِ مصطفوی کا ہے پاسبان و امیں ترے وجود پہ نازاں ہیں آسمان و زمیں ستارہ اوجِ مقدر کا زینتِ پرچم ہلالِ نو ہے نویدِ خوشی لئے ہر دم ہے […]