تانبدگی نہیں تھی رخشنددگی نہیں تھی

تانبدگی نہیں تھی رخشندگی نہیں تھی

میرے سخن میں ندرت اور تازگی نہیں تھی

تاریک تھا مقدر پہنچا درِ نبی پر

دل ہو گیا منور پھر تیرگی نہیں تھی

سرکارِ دو جہاں کی آمد سے پیش تر تو

لہجے میں آدمی کے شائستگی نہیں تھی

ماں نے مجھے سنائیں لوری میں ان کی نعتیں

گو گھر میں مفلسی تھی پر تشنگی نہیں تھی

دیکھا نہیں تھا جب تک خیر الوریٰ کا روضہ

ہجرِ نبی میں ایسی دیوانگی نہیں تھی

سرکارِ دو جہاں نے کر دی مری سفارش

محشر میں مجھ کو کوئی شرمندگی نہیں تھی

پڑھتا تھا ان کی نعتیں کہتا ہوں ان کی نعتیں

کب ذکرِ مصطفیٰ سے وابستگی نہیں تھی

بستانِ عشق میرا تازہ رہا ہمیشہ

روئے سخن پہ میرے کچھ خستگی نہیں تھی

جب تک جھکی نہیں تھی پیشانی ان کے در پر

وہ زندگی تو مظہرؔ کچھ زندگی نہیں تھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]