تجلیات کا سہرا سجا کے آئے ہیں

لوائے حمد محمد اٹھا کے آئے ہیں

بدلنے والا ہے ماحول اب قیامت کا

کہ اب غلام حبیبِ خدا کے آئے ہیں

مسافتیں تو دیوانی ہیں میری سرعت کی

وہ لا مکاں کو یہ باتیں بتا کے آئے ہیں

ہوا ہے ذکرِ مدینہ مرے قریب کہیں

کہ جھونکے مجھ کو بھی ٹھنڈی ہوا کے آئے ہیں

جِناں میں جانے سے کوئی نہ اب ہمیں روکے

کہ ہم حضور کو نعتیں سنا کے آئے ہیں

فراقِ شہرِ مدینہ شدید ہے کتنا

یہ پوچھ ان سے جو طیبہ میں جا کے آئے ہیں

محبتوں کی ردائیں لپیٹ کر دیکھو

وہ اپنے نور سے دنیا سجا کے آئے ہیں

شکارِ پستئِ قلب و جگر تبسم کو

وہ اپنی نعت کے جملے بتا کے آئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]