تجھ کو اپنا کے بھی اپنا نہیں ہونے دینا

زخم دل کو کبھی اچھا نہیں ہونے دینا

میں تو دشمن کو بھی مشکل میں کمک بھیجوں گا

اتنی جلدی اسے پسپا نہیں ہونے دینا

تو نے میرا نہیں ہونا ہے تو پھر یاد رہے

میں نے تجھ کو بھی کسی کا نہیں ہونے دینا

تو نے کتنوں کو نچایا ہے اشاروں پہ مگر

میں نے اے عشق! یہ مجرا نہیں ہونے دینا

اس نے کھائی ہے قسم پھر سے مجھے بھولنے کی

میں نے اس بار بھی ایسا نہیں ہونے دینا

زندگی میں تو تجھے چھوڑ ہی دیتا لیکن

پھر یہ سوچا تجھے بیوہ نہیں ہونے دینا

مذہب عشق کوئی چھوڑ مرے تو میں نے

ایسے مرتد کا جنازہ نہیں ہونے دینا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]