ترا لطف و کرم بے انتہا ہے

تُو مخلوقات کا حاجت روا ہے

مرا تیرے سوا کوئی نہیں ہے

مجھے تیرے کرم کا آسرا ہے

عبث ڈھونڈا کیا دیر و حرم میں

خدا میرے دل و جاں میں بسا ہے

کرے نامِ خدا دل میں چراغاں

مرے کانوں میں بھی رس گھولتا ہے

جو نیکی کر تو دریا میں بہا دے

تو اپنی نیکیاں کیوں تولتا ہے

نمازوں میں خدا کو دیکھ تُو بھی

تجھے تیرا خدا تو دیکھتا ہے

فنا فی اللہ جو ہو خود کو مٹا دے

ظفرؔ عاشق وہی تو با خدا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]