ترا کرم بھی حقیقت ہے جانِ حرف ، مگر
سخن عطاء ہے ، کوئی اکتساب تھوڑی ہے
ہزار پشت سے اجداد نے وراثت میں
نظر میں برق ، تو ہونٹوں پہ پیاس چھوڑی ہے
ترے حضور کھڑے ہیں ، تو اتفاق نہیں
کہ ساربانِ ازل نے مہار موڑی ہے
عجیب سنگ نما ، خار خار منظر تھے
جنہوں نے چشمِ تحیر بدوش پھوڑی ہے
دلِ تباہ نے ، خواہش کا پیٹ کاٹ کے بھی
تمام عمر متاعِ شکست جوڑی ہے
سکوت ہے کہ چٹخنے لگا سماعت میں
نوا طراز نے یکلخت تان توڑی ہے