ترویجِ صدقِ تام ہوئی، کذب مسترد

مہکا زبانِ قُدس سے جب قولِ مستند

اُن کے کرم کا جاری رہا فیض سر بسر

اُن کی عطائے عام رہی ماورائے حد

نا بُود ہوتے جائیں گے باقی نظام سب

قائم رہے گا اُن کا ہی فرمان تا ابد

اِک صوتِ لا یزال نے منظر بدل دیے

جب ٹُوٹتے سخن نے کہا یا علی مدد

مانگے سے بھی سوا دیا، حاجت سے بھی ورا

کتنا طلب نواز تھا وہ فیض بار ید

رب معطیٔ تمام ہے، وہ قاسمِ تمام

تعبیر کس عدد سے ہو پھر جُودِ بے عدد

شامِ دمِ وصال ہے زلفوں کی دلکشی

صبحِ رخِ حیات ہے تنویرِ خال و خد

محشر میں خود کرے گی نمایاں غُلام کو

کافی ہے تیرے بَردہ کو نسبت کی اِک سند

گونجی تھی صوتِ نُور جو بدر و حُنین میں

آوازِ کفر آج بھی ہے اُس کے زیرِ زد

کاسہ بہ دست ہیں تری بخشش کے روبرو

محتاجِ فیض ہیں ترے، محشر میں نیک و بد

مقصودؔ ہم فقیروں کو کیا خوف، کیسا غم

آتی ہے بے دریغ درِ خیر سے رسد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]