تری فضیلت کو اس لئے بھی مرے حوالے سے جانا جائے

دیا ضروری ہے پہلے پہلے جلانے والے سے جانا جائے

بہت غنیمت ہیں ہم سےملنے کبھی کبھی کے یہ آنے والے

وگر نہ اپنا توشہر بھر میں مکان تالے سے جانا جائے

شجر سے میں نے جو شاخ کاٹی شجر بنانے کی ٹھان لی ہے

مری خطا کو خدارا اب تو مرے ازالے سے جانا جائے

یہی تو دریا کو ترک کرکے یہاں تک آنے میں مصلحت ہے

کہ میرے حصہ کی تشنگی کو ترے پیالے سے جانا جائے

بڑی اذیت کے بعد آتا ہے آشنائی کا یہ قرینہ

جو خار رستے میں آئے اس کو اسی کے چھالے سے جانا جائے

بصارتوں کو بصیرتوں کی سند نوازی گئی ہے اظہرؔ

یہی نہ ہو شہرِکم نظر میں سفید کالے سے جانا جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]