تری کاریگری یارب ہر اک شے سے ہویدا ہے

تری قدرت کا نغمہ پردۂ ہستی سے پیدا ہے

نہ گردوں پر ستارے ہیں ، نہ ذرے میں بیاباں ہیں

یہ تیرے حسن کی نیرنگیاں ہیں بزمِ امکاں میں

کئے سطحِ زمیں پر سینکڑوں دریا رواں تو نے

بہا دیں اپنے لطفِ بیکراں کی ندیاں تو نے

ہو کے زور سے جوشِ نمو بخشا زمینوں کو

کیا سیراب آب فیض سے مردہ زمینوں کو

اِدھر ہے طائرانِ خوش نوا میں جوش الفت کا

اُدھر ہے باطنِ اشجار میں چرکا محبت کا

یہ جب اونچے سُروں میں دلربا نغمے سناتے ہیں

تو وہ جوشِ ہوائے بے خودی میں جھوم جاتے ہیں

کبھی گرمی کبھی سردی کبھی برسات کا عالم

کبھی دن کا کبھی بالکل اندھیری رات کا عالم

عروج و انحطاطِ شمس از خود ہو نہیں سکتا

یہ تیری ذاتِ بے ہمتا سے ہے اے خالقِ یکتا

نظر آیا ، بڑھاپا ، پورا ہوا ، گھٹنے لگا ، ڈوبا

بدلتا ہے مہینہ بھر میں کیا کیا چاند کا نقشا

زمیں پانی پہ ہے پانی زمیں ہر کیا تماشا ہے

اِدھر دریا میں کوزہ ہے ادھر کوزہ میں دریا ہے

یہ سب آیاتِ ظاہر ہیں ترے انوارِ پنہاں کی

کہ جیسے دھوپ ہوتی ہے علامت مہرِ تاباں کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]