ترے حضور یہ سوغات لکھ کے لایا ہوں

میں بے ہنر یہ مناجات لکھ کے لایا ہوں

اگرچہ مدح کے شایاں ملا نہ حرف کوئی

وفورِ شوق میں جذبات لکھ کے لایا ہوں

سخن کا مرکز و محور تری ہی ذات رہی

ترا ہی نام تری بات لکھ کے لایا ہوں

کریم آپ کی مرضی پہ ہے قبولِ سخن

میں ٹوٹے پھوٹے یہ کلمات لکھ کے لایا ہوں

جو درد سینے میں طیبہ سے دور رہ کے تھا

وہ سارے ہجر کے حالات لکھ کے لایا ہوں

’’فرشتو پوچھتے ہو مجھ سے کس کی امت ہو‘‘

پڑھو تو کس کے میں نغمات لکھ کے لایا ہوں

سکھائے جو بھی تھے ماں باپ نے حروفِ ثنا

وہ سارے توشہ  لمعات لکھ کے لایا ہوں

گدا مدینے کا کہہ کر پکاریں منظرؔ کو

بہ طرزِ نعت یہ حاجات لکھ کے لایا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]