تصورات کے جنگل سے راستہ نکلے

کبھی مدار سے باہر بھی بھیڑیا نکلے

ترا بھلا ہو کہ تیری وضاحتوں کے سبب

مری شکست کے پہلو ہزارہا نکلے

تھی ایک عمر میں خواہش کہ کھل سکے کوئی

پر اب کے خوف ہے لاحق کہ کون کیا نکلے

کبھی زمین پہ جم کر کھڑے بھی ہو پائیں

چبھا ہوا ہے جو کانٹا جنون کا ، نکلے

جہانِ ترکِ تمنا کے راہ گم کردہ

ستم ظریف تمہاری گلی میں جا نکلے

ہزار بار جو پردہ الٹ سکے کوئی

ہزار بار ہی منظر کوئی نیا نکلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]