دل تھام لیا اور جگر تھام لیا ہے

عشاق نے پھر جا کے ترا نام لیا ہے

وہ نامِ مبارک جو سرِ شام لیا ہے

تا صبح فرشتوں نے مرا نام لیا ہے

دنیا کے لئے نورِ ہدایت ہے سراپا

قرآن کی صورت میں وہ پیغام لیا ہے

جو ہو نہیں سکتا تھا کسی اور نبی سے

ان سے مرے اللہ نے وہ کام لیا ہے

فرمودۂ ربی ہے ‘رَفعنَا لَکَ ذِکرَک’

اللہ سے انعام سا انعام لیا ہے

درکار تھا بندوں کے لئے رب کو نمونہ

تو اسوۂ پیغمبرِ اسلام لیا ہے

العظمۃ للہ سرِ عرش پہنچ کر

حد درجہ بڑا تمغۂ اکرام لیا ہے

کس درجہ ہیں خوش بخت وہ میکش کے جنہوں نے

توحید کا ہاتھوں سے ترے جام لیا ہے

اک ہاتھ میں قرآن ہے اور اک میں شریعت

کیا چاہئے اب ہم کو انہیں تھام لیا ہے

جانے نہیں دیتی مجھے کیوں جانبِ طیبہ

کیا میں نے ترا گردشِ ایام لیا ہے

جاں مست ہے، دل مست ہے، روشن ہے نظرؔ بھی

میخانۂ وحدت سے ترے جام لیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]