تم نے حسین کام وہ کر کے دکھا دیا

یعنی سناں کی نوک پہ قرآں سنا دیا

حقانیت کو بخش کے بافیض زندگی

نام یزید دہر سے یکسر مٹا دیا

مایوسیوں کے شمر کو دے کر شکست فاش

تم نے تو دل میں شہر تمنا بسا دیا

روئیں غم حسین میں آنکھیں کچھ اس قدر

دنیائے دل کو ایک سمندر بنا دیا

دیتا تھا صاف دھوکا نگاہوں کو یا حسین

باطل کے رخ سے آپ نے پردہ ہٹا دیا

سر دے دیا حسین نے لیکن یہ کر گئے

ظلم و ستم کا نام جہاں سے مٹا دیا

رحم و کرم کی خصلت بے داغ نے تری

انسانیت کے قد کو فلک سے بڑھا دیا

شبیر کے نقوش قدم نے نیا خطاب

صحرائے کربلا کو ’چمن زار‘ کا دیا

اے کربلا کے سب سے حسیں پھول اے حسین

تیری اداؤں نے ہمیں جینا سکھا دیا

شبیر تیرے عزم جہاں گیر کو سلام

تونے سناں کی نوک پہ ہنس کر دکھا دیا

کچھ بھی نہ تھا مجیبؔ تخیل مرا ، اسے

شبیر کے خیال نے سونا بنا دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]