تمام رنگ وہی ہیں ترے بگڑ کر بھی

اے میرے شہر تُو اجڑا نہیں اجڑ کر بھی

ہیں آندھیاں ہی مقدر تو پھر دعا مانگو

شجر زمین پر اپنی رہیں اُکھڑ کر بھی

ہم ایسی خاک ہیں اس شہر زرگری میں جسے

بدل نہ پائے گا پارس کوئی رگڑ کر بھی

ملا ہے اب تو مسلسل ہی روئے جاتا ہے

وہ ایک شخص جو ہنستا رہا بچھڑ کر بھی

عجب مقام ہے یہ، وقت میں نہیں برکت

پہاڑ جیسا لگے دن مجھے سکڑ کر بھی

دیا گیا یہ تاثر کہ ہم بھی ہیں آزاد

ہمیں اُڑایا گیا جال میں جکڑ کر بھی

یہ کون لوگ ترے ساتھ چل رہے ہیں ظہیرؔ

اکیلے لگتے ہو ہر ہاتھ کو پکڑ کر بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]