تمھارے شہر کے بازار تک نہیں پہنچا

یہ عشق آخری آزار تک نہیں پہنچا

یہ اور بات کہ بیٹھا ہے میرے پہلو میں

ابھی بھی تو مرے معیار تک نہیں پہنچا

یہ دشت ِ عشق ہے اور اس میں دھوپ کی شدت

وہ جانتا ہے جو دیوار تک نہیں پہنچا

ہر ایک شخص ہے انجام کا تمنائی

سوکوئی مرکزی کردار تک نہیں پہنچا

میں لڑ رہا ہوں ابھی ذات کے اندھیروں سے

سو تیری صبح کے آثار تک نہیں پہنچا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]