تمہاری تصویر ہم مسلسل ہی تک رہے ہیں

ہماری آنکھوں سے اشک بے حد ٹپک رہے ہیں

ہم اشتباہا عجیب بستی میں آ گئے ہیں

کہ لوگ اک دوسرے کے عیبوں کو ڈھک رہے ہیں

ہمارے آنگن میں سنگ باری ہوئی شجر پر

تو ہم نے جانا کہ پھل درختوں کے پک رہے ہیں

خود ان میں جلتے رہیں گے پل پل کہ جن کے دل میں

غرور و بغض و حسد کے شعلے لپک رہے ہیں

انہیں کی خاطر فرات آنکھوں سے بہہ رہی ہے

جو بچے صحرا میں تشنگی سے بلک رہے ہیں

خدا کرے کہ یہ برق انکی صدا نہ سن لے

شجر پہ جو گھونسلوں میں پنچھی چہک رہے ہیں

کہ جنگ شک و یقیں میں دیکھا گیا یہی ہے

عدوئے اہل یقین بس اہل شک رہے ہیں

خدا نے خود لی تھی رزق و روزی کی جب ضمانت

عجب ہے ہم محو فکر نان و نمک رہے ہیں!

عجیب صحرا ہے یہ محبت کا جسمیں نوری

ارادتََا سب خوشی سے پیہم بھٹک رہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]