تمہاری یاد سے دل کو ہیں راحتیں کیا کیا

تمہارے ذکر نے ٹالی ہیں مشکلیں کیا کیا

تمہاری دید کہاں، دیدہِ خیال کہاں

بنائی، پھر بھی خیالوں نے صورتیں کیا کیا

نظر خیال سے پہلے مدینہ جا پہنچی

دل و نگاہ میں دیکھی رقابتیں کیا کیا

اب اس مقام پہ ہم آگئے کہ ذکرِ رسول

جو ایک پل نہ ہو، ہوتی ہیں الجھنیں کیا کیا

بس ایک رات کا مہماں انھیں بنانے کو

زمیں سے عرش نے کی ہوں گی منتیں کیا کیا

تمہارے نام کا ٹھپہ لگا ہُوا پا کر

لگا رہے ہیں مری لوگ قیمتیں کیا کیا

گئے نہیں ہو مدینے ادیؔب تم لیکن

سُنا رہے ہو وہاں کی حکایتیں کیا کیا​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]