تنگئ رزق سے ہلکان رکھا جائے گا کیا

دو گھروں کا مجھے مہمان رکھا جائے گا کیا

تُجھے کھو کر تو تیری فِکر بہت جائز ہے

تُجھے پا کر بھی تیرا دھیان رکھا جائے گا کیا

کس بھروسے پہ اذیت کا سَفر جاری ہے

دُوسرا مرحلہ آسان رکھا جائے گا کیا

خوف کے زیرِاثر تازہ ہوا آئے گی

اب دریچے پہ بھی دربان رکھا جائے گا کیا

دَرد کا شَجرہ دِکھانے کے لئے مقتل میں

ساتھ خنجر کے نمک دان رکھا جائے گا کیا

چل ترا مان رکھا میں نے تقاضا چھوڑا

چپ رہوں گا تو مرا مان رکھا جائے گا کیا

مان بھی لے کہ تُجھے میں نے بہت چاہا ہے

دوست سَر پر مرے قرآن رکھا جائے گا کیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]