تو اپنے پیار کی خیرات کو سنبھال کے رکھ

ترے فقیر نے اب زندگی بِتا لی بھی

کسی کی چشمِ ہوس پوش میں لچکتی ہے

تمہارے پھول سے نازک بدن کی ڈالی بھی

میں تیرے عشق کے مرقد پہ شعر کہتا رہا

کسی نے دور مری لاش نوچ ڈالی بھی

میں خود پہ چیخ رہا ہوں سخن کے پردے میں

غزل کے روپ میں دیتا ہوں خود کو گالی بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ہے داستان فقط ساتویں سمندر تک

یہ واقعہ ہے مگر آٹھویں سمندر کا جہانِ شوق کی معلوم سرحدوں سے پرے مہیب دھند میں ڈر آٹھویں سمندر کا سفینے سو گئے موجوں میں بادباں اوڑھے کھلا ہے بعد میں در آٹھویں سمندر کا وہ سند باد جہازی ہوں جس کو ہے درپیش قضاء کے ساتھ سفر آٹھویں سمندر کا

آج پھر سے دلِ مرحوم کو محسوس ہوا

ایک جھونکا سا کوئی تازہ ہوا کا جیسے مہرباں ہو کے جھلستے ہوئے تن پر اترا سایہِ ابر ، کہ سایہ ہو ہُما کا جیسے نرم لہجے میں مرے نام کی سرگوشی سی زیرِ لب ورد ، عقیدت سے دعا کا جیسے ہاتھ جیسے کوئی رخسار کو سہلاتا ہو دل نے محسوس کیا لمس بقا […]