تیرا نقشِ قدم شہِ نوّاب

ہے جہانِ کرم شہِ نوّاب

تیرے کوچے کا خطہ خطہ ہے

رشکِ باغِ ارم شہِ نوّاب

سر بہ خم تیرے آستانے پر

سارے جاہ و حشم شہِ نوّاب

یاد کر کے تجھے خود اپنی ذات

بھول جاتے ہیں ہم شہِ نوّاب

تم اگر سامنے رہو میرے

کیا وجود و عدم شہِ نوّاب

ابرِ باراں ہے دشتِ وحشت میں

تیری چشمِ کرم شہِ نوّاب

خم مقدر کا دور کرتا ہے

تیری زلفوں کا خم شہِ نوّاب

تیرے در پر نثار کرتا ہوں

دولتِ چشمِ نم شہِ نوّاب

تاجدارِ ولایتِ عظمیٰ

ہیں خدا کی قسم شہِ نوّاب

سارے عالم میں خانداں تیرا

سب سے ہے محترم شہِ نوّاب

تیری آنکھوں کے طاق میں روشن

ہے چراغِ حرم شہِ نوّاب

جو گزرتی ہے خوب جانتے ہو

کیا کہوں حالِ غم شہِ نوّاب

ہر گھڑی ، ہر نفس مجیبؔ کرے

تیری مدحت رقم شہِ نوّاب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]