تیرا وصال اور فقط دل کے دام پر

ایسی عنایتیں نہیں کرتے غلام پر

میں نے سپردِ خاک سبھی رنگ کر دیے

خاکہ سا رہ گیا مرے چہرے کے نام پر

پھر یوں ہوا ، کسی نے تعارف کرا دیا

سر دُھن رہے تھے لوگ وگرنہ کلام پر

پھیلی شفق تو عارضِ گُل پوش ہو گئی

لب رکھ دیے ہیں تیرے فقیروں نے شام پر

مصروفِ رقصِ مرگ ہے مجذوبِ آرزو

تُو بے حجاب محوِ تماشہ ہے بام پر

الجھے رہے رکاب میں لاشے کے پَیر بھی

تھے ہاتھ وقتِ مرگ بھی میرے لگام پر

سینے سے آندھیوں کا بدن چیرتا رہا

جب تک کہ جھڑ نہیں گئے ناصر تمام ، پَر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]