تیری یاد اور تیرے دھیان میں گزری ہے

ساری زندگی ایک مکان میں گزری ہے

اس تاریک فضا میں میری ساری عمر

دیا جلانے کے امکان میں گزری ہے

اپنے لیے جو شام بچا کر رکھی تھی

وہ تجھ سے عہد و پیمان میں گزری ہے

تجھ سے اُکتا جانے کی ایک ساعت بھی

تیرے عشق ہی کے دوران میں گزری ہے

دیواروں کا شوق جہاں تھا سب کو جمال

عمر مِری اُس خاندان میں گزری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]