جاتے ہیں سوئے مدینہ گھر سے ہم

باز آئے ہندِ بد اختر سے ہم

مار ڈالے بے قراری شوق کی

خوش تو جب ہوں اِس دلِ مضطر سے ہم

بے ٹھکانوں کا ٹھکانا ہے یہی

اب کہاں جائیں تمہارے دَر سے ہم

تشنگیِ حشر سے کچھ غم نہیں

ہیں غلامانِ شہِ کوثر سے ہم

اپنے ہاتھوں میں ہے دامانِ شفیع

ڈر چکے بس فتنۂ محشر سے ہم

نقشِ پا سے جو ہوا ہے سرفراز

دل بدل ڈالیں گے اُس پتھر سے ہم

گردن تسلیم خم کرنے کے ساتھ

پھینکتے ہیں بارِ عصیاں سر سے ہم

گور کی شب تار ہے پر خوف کیا

لَو لگائے ہیں رُخِ انور سے ہم

دیکھ لینا سب مرادیں مل گئیں

جب لپٹ کر روئے اُن کے دَر سے ہم

کیا بندھا ہم کو خد جانے خیال

آنکھیں ملتے ہیں جو ہر پتھر سے ہم

جانے والے چل دیئے کب کے حسنؔ

پھر رہے ہیں ایک بس مضطر سے ہم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]