جان و دل سی شے کروں میں کیوں نثارِ زندگی

مجھ کو حاصل جب نہیں کچھ اختیارِ زندگی

کھینچ کر رکھ اس کی راسیں اے سوارِ زندگی

تا غلط رخ پر نہ چل دے راہوارِ زندگی

خوب ہی مرغوب ہے گو مرغزارِ زندگی

پر اسی میں گھومتے پھرتے ہیں مارِ زندگی

یہ حقیقت مجھ سے سن اے کامگارِ زندگی

رزقِ بہتر پر نہیں دار و مدارِ زندگی

میں یہ کہتا ہوں یہ مہلت ہے بکارِ آخرت

میں نہیں دیتا تمھیں درسِ فرارِ زندگی

زندگی کی کل حقیقت موت سے معلوم کر

موت کو پایا ہے ہم نے رازدارِ زندگی

کچھ بھی کہتے رہیے پھر، ہوتا نہیں دل پر اثر

پھیل جائے جب کسی میں زہرِ مارِ زندگی

آرزوؤں کے بھنور میں وہ نہیں پھنستا کبھی

کھل گیا ہے جس پہ رازِ اختصارِ زندگی

چند سانسوں کا تکلف رنج و غم کے درمیاں

مجھ کو بھی ہونا تھا دو دن گنہگارِ زندگی

میرے تیرے ذوق میں اے دل ہے بُعد المشرقین

جاں نثارِ آخرت میں، تو نثارِ زندگی

ٹوٹتے دیکھا حباب اور کھل گئی آنکھیں مری

کر لیا تھا پہلے میں نے اعتبارِ زندگی

موت کے چنگل سے اس کا بچ نکلنا ہے محال

موت کو دیکھا ہے ہم نے پہرہ دارِ زندگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]