جاگ اٹھا تو جنوں کس کو بھلا چھوڑے گا

مجھ کو چھوڑے گا نہ کچھ میرے سوا چھوڑے گا

تار ہو کر جو تنے جاتے ہیں لمحہ لمحہ

درد اعصاب کو مضراب بنا چھوڑے گا

جس کے اک ہاتھ میں اشعار ہیں اک میں وحشت

کیا ترے ہاتھ کو تھامے گا وہ کیا چھوڑے گا

بھیڑیا گھات میں ہے سچ کا لپکنے کے لیے

دامنِ خواب اگر دستِ وفا چھوڑے گا

ایک وہ بھی ہیں جنہیں نصف مسافت پہ کھلا

عشق لے جا کے سرِ دشتِ قضا چھوڑے گا

جس نے تا عمر فقط شعر کے مصرعے جوڑے

اس نے ترکے میں بھی چھوڑی تو نوا چھوڑے گا

آ رہوں گا سرِ میدانِ تاسف آخر

تو مرے تارِ تخیل کا سرا چھوڑے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]