جاں محمد کے گھرانے پہ لٹائے ہوئے ہیں
جاں محمد کے گھرانے پہ لٹائے ہوئے ہیں
ہم درِ پنجتن پہ سر کو جھکائے ہوئے ہیں
——
سانحہ ٕ پشاور کے شہداۓ حق و صراطِ مستقیم کو سلام عقیدت
——
جاں محمد کے گھرانے پہ لٹائے ہوئے ہیں
ہم درِ پنجتن پہ سر کو جھکائے ہوئے ہیں
نوکِ نیزہ پہ کٹے سر سے پڑھیں ہیں قرآں
کیا حسین ابنِ علی وجد میں آئے ہوئے ہیں
جلنے والوں کے لیے اتنا ہی کافی ہوگا
دو ہیں کاندھوں پہ تو دو گود اٹھائے ہوئے ہیں
یہ اگر آپ کی محفل نہیں ہوتی تو حضور
ہم بتاتے کہ کیا گل یہ کھلائے ہوئے ہیں
سجدہ کرتے ہیں جو گوبر سے بھرے جوتوں کو
انگلیاں خاکِ شفا ٕ پر وہ اٹھائے ہوئے ہیں
کربلا کا تو آغاز ہی تھا جنگِ جمل
نسل در نسل سے ہم ان کے ستائے ہوئے ہیں
شوق تھا مسند و منصب کا مگر کیا کہیے
قبضہ بھی باغِ فِدّک پر وہ جمائے ہوئے ہیں
کاٹ تو ڈالا تھا سارا ہی گھرانہ اور اب
نام لیواؤں کی بھی جان کو آئے ہوئے ہیں
وضاحت : ظفر معین بلے جعفری الصادقی العابدی نے قبلہ پیر صاحب حضرت نصیر الدین نصیر صاحب آف گولڑہ شریف کی اجازت سے ان کی نعت کی زمین میں یہ منقبت لکھی اور انہیں سنائی بھی۔