جاہ و حشم نہ لعل و جواہر کی بات ہے

انعامِ عشق صرف مقدر کی بات ہے

جس وقت چاہو اُٹھ کے مرے دل میں آ رہو

چھوڑو تکلفات میاں! گھر کی بات ہے

پھیلا تو پھیلتا ہی گیا لمحۂ فراق

تُو نے تو کہہ دیا تھا کہ پل بھر کی بات ہے

عالم پناہ! عشق پہ چلتا نہیں ہے زور

یہ تو خطا مُعاف ، مقدر کی بات ہے

مت پوچھ میں نے عشق پہ کیوں جان وار دی

دُنیا! یہ تیری سوچ سے اُوپر کی بات ہے

فارس تو چاہے لاکھ بہانے بنا مگر

ہم خوب جانتے ہیں جو اندر کی بات ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]