جب اوجِ سخن کعبۂ ادراک میں خم ہو

تب جا کے تری مدح میں اِک حرف رقم ہو

کیا طرزِ عنایت ہے ترے دستِ سخا کی

اِک بار کریں عرض تو سو بار کرم ہو

جس خاک سے ہے روح کا دیرینہ تعلّق

اے کاش اُسی خاک میں یہ جسم بھی ضم ہو

احساس میں در آئے ترے خواب کی خوشبو

بے صوت رواں دل پہ ترا نازِ قدم ہو

جب پانی میں رُکتا ہی نہیں عکس مسلسل

مستغنی کہاں دید سے پھر دیدئہ نم ہو

ترحیب کی تزئین میں تھے کُن کے مظاہر

نقّاشِ حقیقی کا تمھی نقشِ اَتم ہو

اُس سمت ہی کھُل جائیں کریمی کے دریچے

جس سمت ہی مائل بہ کرم دستِ نِعَم ہو

اظہار میں رکھ دے کوئی امکان کی صورت

اے جانِ جہاں ! ہجر کا احساس تو کم ہو

لہرائے جو اِک پَل کو غِنا بار سیادت

یہ سطوتِ شاہی تو ترا عکسِ حشَم ہو

کیا اوجِ عنایت پہ ہو وہ یومِ تسلی

وہ آتے ہوں اور جاتا ہُوا آخری دَم ہو

مقصودؔ! سرِ شام جو آجائے بُلاوا

واللہ! سحَر کھولے ہُوئے بابِ ارَم ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]