جب بھی پہنچا ہوں آقا کے دربار تک
آنکھ کہنے لگی ہو کے سرشار تک
محوِ پرواز ہے پھر تخیل مرا
پھر سے بڑھنے لگی دل کی رفتار تک
قدسیوں نے تراشی ہے روشن لکیر
عرش سے روضۂ شاہِ ابرار تک
آپ جیسا کوئی تھا نہ ہوگا کہیں
ذاتِ بے مثل سیرت سے کردار تک
ہو مدینے کی دل میں کسک مرتضیٰؔ
یہ تڑپ مجھ کو لے جائے سرکار تک