جب تک مری زبانِ شگفتہ بیاں رہے

نغمہ طرازِ نعتِ شہِ دوجہاں رہے

رحمت خدائے پاک کی سایہ کناں رہے

کیا خوب جتنی دیر بھی ان کا بیاں رہے

ہر چند ہم بہ زمرۂ آوارگاں رہے

پھر بھی اسیرِ الفتِ شاہِ شہاں رہے

یادِ حبیبِ پاک جو جلوہ فشاں رہے

قندیلِ نور قلب مرا بے گماں رہے

جب تک نظر فروز گل وگلستاں رہے

جب تک بساطِ عرض رہے آسماں رہے

جب تک فلک پہ روشنی کہکشاں رہے

ہر لب پہ داستانِ شہِ انس و جاں رہے

کرّو بیاں بہ عرش ہیں اہلِ زمیں بہ فرش

معمور ان کے ذکر سے دونوں جہاں رہے

سب انبیاء خدا کے مقرب ہیں ہاں مگر

محبوبِ کبریا وہی رحمت نشاں رہے

کوئی عمل مطابقِ سنت اگر نہ ہو

لاریب ایسی سعی عمل رائے گاں رہے

دینِ متیں پہ ان کی چلے جو تمام عمر

خرسند و کامیاب رہے کامراں رہے

دیکھا ہے جب سے گنبدِ خضرا خوشا نصیب

بزمِ تصورات میں وہ آستاں رہے

طیبہ کے قافلے میں ہو شامل پھر ایک بار

آگے رہے نظرؔ کہ پسِ کارواں رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]