جب کبھی تلخئ ایام سے گھبراتا ہوں

سر جھکاتا ہوں، ترے در پہ چلا آتا ہوں

بے یقینی کے اندھیروں میں چراغاں کے لیے

شمع مدحت کی جلاتا ہوں، ضیا پاتا ہوں

غم نہ کر، شہر محبت سے پیام آئے گا

ہجر میں دل کو اسے بات پہ ٹھہرتا ہوں

میں گنہگار کہاں، مدحت سرکار کہاں

بخت پر ناز ہے، اعمال پہ شرماتا ہوں

کملی والا مری تقدیر بدل دیتا ہے

ٹھوکریں کھاتا ہوں، ہر بار سنبھل جاتا ہوں

رات ڈھلتی ہے تو میں شہر شہِ دیں کی طرف

تحفۂ صلِ علی بھیج کے سو جاتا ہوں

قاسمِ نعمتِ حق ہیں میرے آقا اخترؔ

نعمت حق وہ کھلاتے ہیں تو میں کھاتا ہوں

میرے آبا کا شرف اُن کی غلامی اخترؔ

میں تو بچپن سے اس اعزاز پہ اتراتا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]