جس خاک سے بنے تھے ہم اُس خاک پر گرے

شاخِ شجر سے ٹوٹ کے جیسے ثمر گرے

سونپی ہیں راہِ شوق نے وہ وہ امانتیں

کاندھوں سے رہ نورد کے زادِ سفر گرے

آیا ہے کس کا نام یہ نوکِ قلم پر آج

کاغذ پر آ کے سینکڑوں شمس و قمر گرے

خاشاک بن گئے ہیں ہواؤں کے ہاتھ میں

اپنی جڑوں سے ٹوٹ کے جتنے شجر گرے

گھر ٹوٹنے کا سانحہ عریاں سا کر گیا

جامے گرے بدن سے کہ دیوار و در گرے

پرچم نہیں ہے، ورثۂ اسلاف ہے ظہیرؔ

پرچم گرا تو جانیئے پُرکھوں کے سر گرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]