جس دل میں نور عشق ہے ذات الہ کا

اس کو نہیں ہے خوف کوئی ماسواہ کا

اس کا تو ہر فقیر ہے دنیا کا تاجور

ہر تاجور فقیر ہے اس بادشاہ کا

ڈالی ہے اس نے دہر کو زنجیر وقت کی

گویا ہے یہ جو سلسلہ شام و پگاہ کا

شاہد ہے اس پہ گردش لیل و نہار بھی

مختار ہے جہان کے سفید و سیاہ کا

چاہے تو مچھروں سے دے نمرودیوں کو مار

چاہے تو زور مور کو بخشے سپاہ کا

ظالم تجھے تو فکر شکم نے ہی کھا لیا

اٹھ چارہ ڈھونڈ ظلمت قلب و نگاہ کا

کر اختیار جیسے بھی ہو راہ بندگی

ہاں زیست سے سلیقہ یہی ہے نباہ کا

پردے تعینات کے چیر اور دیکھ اسے

ہر ذرہ باب نور ہے اس بارگاہ کا

حمد خدا میں کیوں نہ گہر ریز ہو قلم

آسی گدا ہے سید رحمت پناہ کا​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

کرم ایسا کبھی اے ربِ دیں ہو

نبی کا سنگِ در میری جبیں ہو نگاہوں میں بسا ہو سبز گنبد لبوں پر مدحتِ سلطانِ دیں ہو سکوں کی روشنی صد آفریں ہے نبی کی یاد ہی دل کی مکیں ہو محبت ، پیار ، امن و آشتی کا مرا کردار سنت کا امیں ہو ہمیشہ دین کے میں کام آؤں مرا ہر […]