جمال سارا ہے اس کی اترن کہ جانِ حسن و جمال ہے وہ

کمال سارا اسی کا صدقہ کہ اصلِ فضل و کمال ہے وہ

حسین تر ہے اسی کا اُسوہ جمیل تر ہے اسی کا قدوہ

ادائیں اس کی سراپا خُوبی کہ روحِ حسنِ خصال ہے وہ

کلامِ ربیّ کی ندرتوں سے عیاں ہے حسنِ کلام اس کا

خدا کےلہجے میں بولتا ہے کہ ایسا قُدسی مقال ہے وہ

کسی کو تھا حکمِ لن ترانی یہاں تقاضے تھے ادنُ منّی

کلیم فضلِ کلام تک تھے حبیبِ وصل و وصال ہے وہ

اسی سے سارے شعور روشن اسی سے روحِ قلوب تاباں

وہی خیالوں میں جگمگائے یقیں ورائے خیال ہے وہ

نہ اس کے جیسا ہوا ہے کوئی نہ اس کے جیسا کبھی بھی ہوگا

نہ کوئی تشبیہ نہ استعارہ کہ آپ اپنی مثال ہے وہ

متاعِ دنیا کوکچھ نہ جانیں وہ اس کےسلماں وہ اس کے بُوذر

نہ لائے خاطر میں حسنِ جنّت فدائی ان کا بلال ہے وہ

حضور اپنے کرم کا صدقہ نگاہیں رحم و کرم کی ڈالیں

کہ خونِ مسلم ہوا ہے ارزاں کہ غم سے اُمت نڈھال ہے وہ

ہے شکر راہِ خدا میں نوری بِتا رہا ہے یہ عمر اپنی

پھرا ہے گرچہ وہ ملکوں ملکوں حریصِ شہرِ جمال ہے وہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]