جنابِ شیرِ خدا کے قدموں میں سروری ہے

اور ان کی چاہت مرے مقدر کی روشنی ہے

درِ سخا سے علوم سارے ہی بٹ رہے ہیں

ہر اِک فراست یہاں مؤدب کھڑی ہوئی ہے

یہ ان کی تلوار پر ازل سے لکھا ہوا ہے

ترے مقابل ہر ایک طاقت کی بے بسی ہے

خدائے واحد نے اپنے پردے ہٹا دئیے ہیں

تمہارے سجدے بتا گئے ہیں یہ بندگی ہے

جہاں میں کربل سا ظلم ہوتا کبھی نہ دیکھا

ترے گھرانے کا شیوہ لیکن بہادری ہے

تمہاری سیرت کے سرورق پر یہی لکھا ہے

کہ حکمِ آقا کے بعد سب کچھ ہی ملتوی ہے

جو نامِ مولا علیؓ کو سن کر نہ جھوم اُٹھے

یہ اُس کے اندر کی مفلسی ہے یہ تیرگی ہے

وہ جب کہیں گے شکیلؔ مانگو بس اتنا کہنا

کہ میری حسرت ترے گداؤں کی نوکری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]