جو تم ٹھہرو تو ہم آواز دیں عمرِ‌ گریزاں کو

ابھی اک اور نشتر کی ضرورت ہے رگِ جاں کو

کبھی ہم نے بھی رنگ و نور کی محفل سجائی تھی

کبھی ہم بھی سمجھتے تھے چمن اک رُوئے خنداں کو

کبھی ہم پر بھی یونہی فصلِ گل کا سحر طاری تھا

کبھی ہم بھی جنوں کا حق سمجھتے تھے گریباں کو

کہیں ایسا نہ ہو شیرازہِ ہستی بکھر جائے

نہ دیکھو اس توجہ سے کسی آشفتہ ساماں کو

کسی کا دوست ہے کوئی نہ کوئی دشمنِ جاں ہے

حزیں اپنے ہی سائے ڈس گئے کمبخت انساں کو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]