جو تیرا رنگ تھا، اس رنگ سے نہ کہہ پایا

میں دل کی بات کبھی ڈھنگ سے نہ کہہ پایا

کسی خیال میں ترتیب کوئی تھی ہی نہیں

سو شعر کوئی بھی آہنگ سے نہ کہہ پایا

برادری کے کسی فیصلے نے باندھ دیا

میں دل کی بات مری منگ سے نہ کہہ پایا

شہید ہونے سے پہلے اُسے بھی دیکھنا تھا

مگر یہ بات اسے جنگ سے ، نہ کہہ پایا

عجیب سی کوئی خواہش تھی ٹوٹنے کی زبیر

میں آئینہ تھا مگر سنگ سے نہ کہہ پایا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]